۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
مولانا سید قمر عباس قنبر نقوی

حوزہ/مسلمانوں خوابِ غفلت سے جاگو ! قرآن مجید کا دوسرا اہم پیغام آپسی اتحاد اور اخوت و یکجہتی ہے ہم نے اس پیغامِِ قرآنی کو بھی بھولا دیا۔ ہم کتنے بھولے اور ناسمجھ ہیں کہ  تفرقہ ڈالنے والی  امریکہ اور برطانیہ کی شیطانی مہم کو اپنے عمل سے تقویت پہنچا رہے ہیں کیونکہ آج ہمارا محبوب مشغلہ جہنم وجنت اور کفر و اسلام کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنا ہے۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے برجستہ خطیب و بہترین تجزیہ نگار مولانا سید قمر عباس قنبر نقوی سرسوی مقیم نئی دہلی نے اپنی ایک تحریر میں کہا کہ غاصب اسرائیل کی درندہ صفت افواج اور فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس اور دیگر تحریکوں کے مابین 10 مئی کو شروع ہوئی خوفناک جنگ کا خاتمہ مسلم ممالک میں اسرائیل کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والے مصر اور بعض دوسرے ممالک کی سفارتی کوششوں پر 21 مئی کو ہو تو گیا۔ لیکن اس جنگ میں اسرائیل کی فضائی دہشتگری سے نہ صرف غزہ کا انفراسٹرکچر ، سڑکیں ، شہری عمارتیں ، ہسپتال ، تعلیمی ادارے تباہ ہوئے ہیں بلکہ 250 سے زیادہ قیمتی جانیں بھی  گئیں جنمیں 66 شیر خوار اور کمسن بچے 38 خواتین بھی شامل ہیں۔ لیکن فلسطینیوں کے عزم و ارادے میں مزید پختگی پیدا ہوتی نظر آرہی ہے جسکا اظہار انہوں نے جنگ بندی کے موقع پر کیا۔ جنگ میں اسرائیلی کارخانوں اور مواصلاتی نظام اور جانوں کا  بھی نقصان ہوا ہے۔ اس دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس ہوئے لیکن سب بے نتیجہ رہے ، ہلاکتی تباہی مچانے والے ہتھیاروں کا اقراری  شمالی کوریا کے خلاف فوجی کارروائی سے پرہیز کرنے والے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بھی اجلاس ، ڈیبیٹ اور موبائلی گفتگو کیں اور اپنے شہریوں کی حفاظت اور ملک میں امن و سلامتی کے نام پر اسرائیلی دہشتگردانہ کارروائیوں کی حمایت کرتے ہوئے اسلام اور انسانیت کے خلاف کسی نئی سازش میں مصروف ہوگئے۔ یہ ممالک اسرائیل کی حمایت و دفاع کیوں نہ کرتے ان کے ہاتھ تو پہلے ہی سے  فلسطینیوں اور دوسرے مظلومین کے لہو سے  آلودہ ہیں۔  اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم  ( او۔ آئی۔ سی یعنی آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن)  کا اجلاس بھی ہوا لیکن مذمتی قرارداد سے آگے نہ بڑھ  سکا۔

آیئے غور کریں ! عالمی مسلمانوں کا قبلئہ اوّل بیت المقدّس کی آزادی کب ہو گی، کیا مظلوم فلسطینیوں کو کبھی  نصیب مل پائے گا ، کمزور مسلم ممالک کو مصلحتوں کے غلاف میں کب تک امریکہ و اسرائیل کی درپردہ حمایت کرنی ہوگی ، اور کیا حمایت کے بعد یہ ممالک اور حکمران عراق جیسی تباہی اور صدام حسین جیسی ذلالت سے محفوظ رہیں گے ۔ کیا اب ٹرمپ جیسا کوئی امریکی صدر یہ کہنے کی جرات نہ کرسکے گا کہ عرب حکمرانوں کا اسرائیل سے ہمدردانہ تعلقات رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ امریکہ اسرائیل کا دوست ہے اور ۔۔۔۔۔ کی حکومت امریکی فوجی مدد کے بغیر دو ہفتے بھی باقی نہیں رہ سکتی ۔ کیا امت مسلمہ کے مسائل صرف کھوکھلے نعروں سے حل ہو جائیں گے یا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔ کیا ہزاروں بیگناہ بچوں ، جوانوں ، عورتوں اور بوڑھوں کے خون کی قیمت صرف یہ ہے کہ انکے متعلقین کی کچھ مالی مدد کر دی جائے۔ ایسے نہ جانے کتنے سوالات ہیں جو ہر حساس اور غیور ذہن میں گردش کرتے ہیں۔ آیئے ہم اپنی اپنی سطح پر جواب تلاش کریں اور ارباب عقل و خرد اور صاحبانِ اختیار و اقتدار تک پہنچانے کی کوشش کریں۔
    آئیے سوچیں ! قرآنِ مجید کا تو دعوا یہ ہے کہ میرے اندر ہر خشک و تر موجود ہے یعنی ہر مسئلے اور دشواری کا حل میرے پاس ہے ، اور  قرآن مجید ہر مسلمان کے گھر میں موجود بھی  ہے تو پھر طاقت و قوت کا مرکز و محور امریکہ اور اسکے اتحادی کیسے بن گئے اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن رٹا ضرور ہے لیکن ہم اسکی تعلیمات اور پیغامات سے بہت دور ہیں جبکہ اغیار نے قرآن مجید سے مسائل کا حل تلاش کیا ہے نتیجے میں انکی طاقت و قوت ،  اقتدار و اختیار اور دولت و ثروت میں بھر پور اضافہ ہوا ۔  قرآن مجید پہلا پیغام علم سے آگہی اور قربت کا ہے ۔ قرآن مجید پر ایمان رکھنے کا تقاضہ تو یہ تھا کہ مسلم ممالک کو علم اور جدید علم کا مرکز ہونا چاہیے تھا کہ دنیا کا ہر طالب علم  ہمارے علمی مراکز ، ہماری کتب اور ہمارے محققین و مصنفین کا محتاج ہوتا ۔ حصولِ علم کے لیے ہماری زبانیں سیکھنا ان کی  مجبوری ہوتی لیکن ہماری غفلتوں، شاہی اقتدار کا مزہ ( چاہے دشمن کی غلیظ بیساکھیوں کے سہارے ہو ) اور عیش و عشرت بھری زندگی کے لالچ  نے ہمیں اس منزل پر لا کر کھڑا کردیا کہ ہمارے وجود کی بقا بھی تقریبا دوسروں کے رحم و کرم پر ہے۔ لیکن جن مسلم ممالک کی قیادت اور عوام نے تعلیماتِ قرآنی پر انحصار کیا وہ مستقل ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔ قرآن کے ماننے والوں بیدار اور متحد ہو جائو آج صرف ایک فلسطین نہیں ہے ہر ہر قدم پر ایک فلسطین ہے ۔ یاد رکھو ہر قوم اور تحریک کا سب سے اہم سرمایہ انسانی قوت ہے جسکو صحیح تربیت علم سے ہی ملتی ہے ، علم کے سبب ہی بین الاقوامی سطح پر اقتصادی اور سیاسی عزت و وقار میں مضبوطی پیدا ہوتی ہے۔ سوچیں کیا علم کے بغیر ملک وقوم کی تعمیر و ترقی اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں نمایاں خدمات انجام دینا ممکن ہے ۔ ملک و قوم کا درد  رکھنے والے افراد اور طلباء میدان علم میں اپنا کردار نبھائیں سائینس و ٹیکنالوجی ، میڈکل اور تیز رفتار سافٹویئر  کے مختلف شعبوں میں پیش رفت کر تے ہوئے دنیا سے مقابلہ کریں۔ امیر المومنین حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں کہ یتیم وہ نہیں ہے جسکا باپ مر جائے بلکہ یتیم وہ ہے جو جاہل رہ جائے۔

مسلمانوں خوابِ غفلت سے جاگو ! قرآن مجید کا دوسرا اہم پیغام آپسی اتحاد اور اخوت و یکجہتی ہے ہم نے اس پیغامِِ قرآنی کو بھی بھلادیا۔ ہم کتنے بھولے اور ناسمجھ ہیں کہ  تفرقہ ڈالنے والی  امریکہ اور برطانیہ کی شیطانی مہم کو اپنے عمل سے تقویت پہنچا رہے ہیں کیونکہ آج ہمارا محبوب مشغلہ جہنم وجنت اور کفر و اسلام کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنا ہے۔ 

نوجوان مسلمانوں مایوس نہ ہو تبدیلی رفتہ رفتہ ہو تی ہے دوسروں سے امیدیں اور توقعات رکھنا اور ان پر الزامات لگانا ختم کرو ذرہ برابر بھی وقت برباد کیے بغیر نئے عزم ۔ ہمت اور شوق و ولولے اور جذبہ ذمہ داری کے ساتھ اٹھو اور تعلیمی پسماندگی کو دور کرتے ہوئے آگے بڑھو انشاء اللہ تعالی کل کی دنیاوی سپر پاور آپ ہو گے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .